فریبِ جبہ و دستار ختم ہونے کو ہے
لگا ہواہے جو دربار، ختم ہونے کو ہے​

​
کہانی کار نے اپنے لیے لکھا ہے جسے
کہانی میں وہی کِردار ختم ہونے کو ہے​


سمجھ رہے ہوکہ تم سے ہے گرمئ بازار
سو اب یہ گرمئ بازار ختم ہونے کو ہے​


مسیØ+ا، کیسا تجھے Ù„Ú¯ رہا ہے، Ú©Ú†Ú¾ تو بتا
کہ تیرے سامنے بیمار ختم ہونے کو ہے​


برہنہ ہوتی چلی جا رہی ہے یہ دُنیا
کہیں گلی، کہیں دیوار ختم ہونے کو ہے​



یہ کیا ہوا تجھے تسلیم کرنے والوں میں
سُنا ہے، جراتِ اظہار ختم ہونے کو ہے​


جو مجھ پہ بیت گئی وہ خبر نہیں مِلتی
کہ اب تو سارا ہی اخبار ختم ہونے کو ہے​


اب اس کے بعد نئی زندگی کا ہے آغاز
یہ زندگی تو مرے یار ختم ہونے کو ہے​


سلیم کثرتِ اشیا کی گرد میں آخر
غرُورِ درہم و دینار ختم ہونے کو ہے​

​